کئی خواتین میں کشش اور خواہش بالکل پیدا نہیں ہوتی ، مگر کیوں ؟

خواتین میں کشش

فہد نیوز! کئی لڑکیوں اور خواتین میں کشش اور خواہش بالکل پیدا نہیں ہوتی ، مگر کیوں ؟ہنستی کھلکھلاتی اور سٹائلش کپڑے پہننے والی سندھیا اپنی عمر 40 برس بتاتی ہیں۔ اس بات پر پہلی بار میں تو یقین بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ دیکھنے میں اپنی عمر سے بہت کم لگتی ہیں۔ تو اس پر ہم اُن سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’آپ تو مشکل سے 30 کی لگتی ہیں۔

نامور خاتون صحافی سندھو واسنی بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں۔ 40برس کی بالکل بھی نہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟سندھیا مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتی ہیں۔ ’راز یہ ہے کہ نو بوائے فرینڈ، نو ہسبینڈ، نو فیملی اور نو فکر.‘سندھیا بنسل ایک نامور کپمنی میں مارکیٹنگ پروفیشنل ہیں اور دلی کے ایک نواحی علاقے میں کرائے کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔اکیلے وہ اس لیے رہتی ہیں کیونکہ وہ خود کو ’اے سیک شوئل‘ بتاتی ہیں۔ انھوں نے شادی نہیں کی اور فیملی یا خاندان سے متعلق ان کے خیالات کافی مختلف ہیں۔اے سیک شوئل ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر کسی مرد یا عورت کے ساتھ کے کشش محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کسی مرد یا عورت سے کشش محسوس کرنے کی طرح یہ بھی ایک طرح کا رجحان یا ’سیک شوئل اورینٹیشن‘ ہے۔سندھیا یہ نہیں چاہتیں کہ ان کی شناخت خاندان کے روایتی ڈھانچے میں گم ہو کر رہ جائے

۔انھیں ایسا نہیں لگتا کہ ایک خوش حال خاندان میں شوہر، بیوی اور بچوں کا ہونا لازمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے خاندان کا ایک منفرد تصور اور تعریف ہوتی ہے۔ سندھیا بتاتی ہیں ’23-24 برس کی عمر میں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میرے بارے میں کچھ تو ہے جو دوسروں سے جدا ہے۔ اس وقت میری ہم عمر لڑکیوں کے بوائے فرینڈز بننے لگے تھے۔ وہ لڑکوں کے ساتھ ڈیٹ کر رہی تھیں اور رشتے قائم کررہی تھیں۔ لیکن میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہی تھی۔‘ایسا بھی نہیں تھا کہ سندھیا کو لڑکے بالکل ہی اچھے نہیں لگتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں ’اس وقت ایک لڑکا مجھے کافی پسند تھا۔ مجھے اس کا ساتھ بہت اچھا لگتا تھا۔ ساتھ رہتے رہتے اس کی امیدیں بڑھنے لگیں اور میرے خیال سے وہ ایک نارمل سی بات تھی۔‘’لیکن بات ملاپ کی ہوئی تو میں ایک دم پریشان ہوگئی۔ مجھے ایسا لگا کہ میرا جسم یہ سب قبول نہیں کر سکتا ہے۔

مجھے لگا کہ جیسے مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘ایسا نہیں تھا کہ سندھیا کے ذہن میں کوئی ڈر تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ ملاپ کے بغیر وہ اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس کرتی تھیں۔سندھیا بتاتی ہیں ’میں رشتوں میں رومانویت تلاش کرتی تھی اور اپنے رشتے کو اسی جذبات تک محدود رکھتی تھی۔ مجھے کسی کی طرف کبھی بھی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ‘’جس لڑکے سے مجھے محبت تھی مجھے اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا، اسے گلے لگانا، اس کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ ملاپ کی بات آتے ہی مجھے الجھن محسوس ہونے لگتی تھی۔ میرا جسم ساتھ دینا بند کر دیتا تھا۔‘سندھیا مزید بتاتی ہیں ’شروعات میں مجھے لگا کہ میرے ساتھ کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اپنے رشتے ٹوٹنے کے لیے میں خود کو قصور وار قرار دینے لگی تھی۔ ‘’لیکن جیسے جیسے میں نے اے سیک شوئل ہونے کے بارے میں پڑھا

اور اسے بہتر طریقے سے سمجھنے لگی تو میں نے اپنے آپ کو جیسی ہوں ویسا ہی قبول کرنا شروع کردیا۔ دھیرے دھیرے میں سمجھ گئی کہ نہ تو مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ ہی میں اب نارمل ہوں۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ’سوشل میڈیا کے ذریعے میری ملاقات اپنے جیسے دوسرے لوگوں سے ہوئی۔ اس طرح مجھے اپنے جسم اور اپنے کشش کے رجحان کے بارے میں بیداری حاصل ہوئی اور میں پُراعتماد محسوس کرنے لگی۔‘کیا اس کے بعد انھوں نے اپنے لیے ہم سفر تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی؟اس کے جواب میں سندھیا کہتی ہیں کہ ’اپنے تجربات سے میں یہ سمجھ چکی تھی کہ اگر میں کسی مرد کے ساتھ رشتہ قائم کرتی ہوں تو ایک وقت کے بعد اس کی امیدیں بڑھنے لگیں گی۔ اس درمیان میں اپنی شناخت سے متعلق کافی حساس ہو چکی تھی اور کسی بھی قیمت پر اس پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھی۔‘’مجھے یہ بات سمجھ آچکی تھی

کہ کوئی اے سیک شوئل لڑکا ہی میرا ساتھی بن سکتا ہے۔ اس لیے میں نے کسی اور لڑکے کو ڈیٹ کرنا بند کردیا اور ہم سفر کی تلاش بھی چھوڑ دی۔‘اگر اے سیک شوئل برادری میں ان کی کسی شخص سے ملاقات ہوتی ہے۔ تو کیا وہ ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ سکتی ہیں؟اس بارے میں سندھیا کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر انھیں اس طرح کے کئی لوگ ملے لیکن اصل زندگی میں کوئی نہیں ملا۔سندھیا بتاتی ہیں ’بعض لوگ اے سیک شوئل ہوتے ہیں لیکن صحیح معلومات حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کو سمجھ نہیں پاتے۔ بعض افراد سماجی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے اپنے تعلق کے رجحان کو پوشیدہ ہی رکھتے ہیں اور اندر ہی اندر

Leave a Comment